چمکتی آنکھ میں صحرا دکھائی صاف دیتا ہے
مرے لہجے میں سناٹا سنائی صاف دیتا ہے
میں اک اسرار ماتم لاکھ خود میں گم ہوا جاؤں
مگر سینہ کسی شے کی دہائی صاف دیتا ہے
وہ کیا کیا بات کرتا ہے نہ اک پل بھی بچھڑنے کی
مگر لہجہ کہ احساس جدائی صاف دیتا ہے
صفیں یوں تو مقابل دشمنوں کی ہیں مگر ان میں
عجب اک مہرباں چہرہ دکھائی صاف دیتا ہے
میں آ پہنچا ہوں اے بانیؔ عجب اندھی جگہ مانا
ہے اب بھی ایک رستہ جو سجھائی صاف دیتا ہے
غزل
چمکتی آنکھ میں صحرا دکھائی صاف دیتا ہے
راجیندر منچندا بانی