چمکتے سورج اچھالتے تھے کہاں گئے وہ
جو شامیں صبحوں میں ڈھالتے تھے کہاں گئے وہ
بدن میں لرزش کہ دن ڈھلا جا رہا ہے پھر سے
جو دن سے گردش نکالتے تھے کہاں گئے وہ
ابھی تو ہاتھوں میں حدتیں ان کے ہاتھ کی ہیں
ابھی تو ہم کو سنبھالتے تھے کہاں گئے وہ
اتارتے تھے غبار لیل و نہار رخ سے
اور آئنوں کو اجالتے تھے کہاں گئے وہ
وہ شاخچے چھو کے سبز کرنے کے فن سے واقف
جو پھول ہاتھوں میں پالتے تھے کہاں گئے وہ
جو اسم پڑھتے تھے روشنی کا سیہ شبوں میں
جو لو چراغوں میں ڈالتے تھے کہاں گئے وہ

غزل
چمکتے سورج اچھالتے تھے کہاں گئے وہ
احسان اصغر