چمکتے خواب ملتے ہیں مہکتے پیار ملتے ہیں
تمہارے شہر میں کتنے حسیں آزار ملتے ہیں
چلے آتے ہیں چپکے سے خیالوں کے مہ و انجم
مری تاریک راتوں کو بہت غم خوار ملتے ہیں
دبے لہجہ میں یہ کہہ کر نسیم جاں فزا گزری
چلو ان ریگزاروں سے پرے گلزار ملتے ہیں
غزل کو تجربات زندگی کی دھوپ میں جامیؔ
نئے اسلوب ملتے ہیں نئے معیار ملتے ہیں
غزل
چمکتے خواب ملتے ہیں مہکتے پیار ملتے ہیں
خورشید احمد جامی