چمکنے لگا ہے ترا غم بہت
دیے ہو چلے اب تو مدھم بہت
گھٹاؤں میں طوفاں کے آثار ہیں
تری زلف ہے آج برہم بہت
یہاں لہلہائے ہیں اشکوں میں باغ
نہ اترائے پھولوں پہ شبنم بہت
یہ وہ دور ہے جس کا درماں نہیں
یہ وہ راز ہے جس کے محرم بہت
یہ دامان وحشت کی کچھ دھجیاں
بنائیں گے لوگ ان سے پرچم بہت
گدائے محبت کی خودداریاں
ملے راہ میں خسرو و جم بہت
سلگتی رہی رات بھر چاندنی
شب ہجر تھی روشنی کم بہت
نہ جائے گی دل سے کبھی آرزو
یہ بنیاد ہے آہ محکم بہت
غزل
چمکنے لگا ہے ترا غم بہت
نور بجنوری