چمک رہا ہے مرا سر بھی میں بھی دنیا بھی
اک آئینہ ہے سمندر بھی میں بھی دنیا بھی
کھلا کہ ایک ہی رشتے میں منسلک ہیں تمام
یہ میرا سر بھی یہ پتھر بھی میں بھی دنیا بھی
کسی گناہ کی پاداش میں ہیں سب زندہ
مرے شجر مرے منظر بھی میں بھی دنیا بھی
اتر رہے ہیں سبھی اک نشیب کی جانب
بلندیوں سے یہ پتھر بھی میں بھی دنیا بھی
خبر کسی کو کسی کی نہیں یہاں لیکن
ہوا کی زد پہ گل تر بھی میں بھی دنیا بھی
غزل
چمک رہا ہے مرا سر بھی میں بھی دنیا بھی
اسعد بدایونی