چلتے رہنے کے لیے دل میں گماں کوئی تو ہو
بے نتیجہ ہی سہی پر امتحاں کوئی تو ہو
آسمانوں کے ستم سہتی ہیں اس کے باوجود
سب زمینیں چاہتی ہیں آسماں کوئی تو ہو
مہربانوں ہی سے بچ کر آئے تھے تم دشت میں
اب یہاں بھی لگ رہا ہے مہرباں کوئی تو ہو
قہقہوں کو یاد رکھتی ہی نہیں دنیا کبھی
اس لیے دکھ کی بھی پیارے داستاں کوئی تو ہو
کر رہا ہوں میں درختوں سے مسلسل گفتگو
اس گھنے جنگل میں دانشؔ ہم زباں کوئی تو ہو
غزل
چلتے رہنے کے لیے دل میں گماں کوئی تو ہو
مدن موہن دانش