EN हिंदी
چلتے رہنے کے لیے دل میں گماں کوئی تو ہو | شیح شیری
chalte rahne ke liye dil mein guman koi to ho

غزل

چلتے رہنے کے لیے دل میں گماں کوئی تو ہو

مدن موہن دانش

;

چلتے رہنے کے لیے دل میں گماں کوئی تو ہو
بے نتیجہ ہی سہی پر امتحاں کوئی تو ہو

آسمانوں کے ستم سہتی ہیں اس کے باوجود
سب زمینیں چاہتی ہیں آسماں کوئی تو ہو

مہربانوں ہی سے بچ کر آئے تھے تم دشت میں
اب یہاں بھی لگ رہا ہے مہرباں کوئی تو ہو

قہقہوں کو یاد رکھتی ہی نہیں دنیا کبھی
اس لیے دکھ کی بھی پیارے داستاں کوئی تو ہو

کر رہا ہوں میں درختوں سے مسلسل گفتگو
اس گھنے جنگل میں دانشؔ ہم زباں کوئی تو ہو