چلتے چلتے یہ حالت ہوئی راہ میں بن پئے مے کشی کا مزا آ گیا
پاس کوئی نہیں تھا مگر یوں لگا کوئی دل سے مرے آ کے ٹکرا گیا
آج پہلے پہل تجربہ یہ ہوا عید ہوتی ہے ایسی خبر ہی نہ تھی
چاند کو دیکھنے گھر سے جب میں چلی دوسرا چاند میرے قریب آ گیا
اے ہوائے چمن مجھ پہ احساں نہ کر نکہت گل کی مجھ کو ضرورت نہیں
عشق کی راہ میں پیار کے عطر سے میرے سارے بدن کو وہ مہکا گیا
ہجر کا میرے دل میں اندھیرا کئے وہ جو پردیس میں تھا بسیرا کیے
جس کے آنے کا کوئی گماں بھی نہ تھا دفعتاً مجھ کو آ کے وہ چونکا گیا
رنگ ممتازؔ چہرے کا ایسا کھلا زندگی میں نیا حادثہ ہو گیا
آئنہ اور میں دونوں حیران تھے میں بھی شرما گئی وہ بھی شرما گیا
غزل
چلتے چلتے یہ حالت ہوئی راہ میں بن پئے مے کشی کا مزا آ گیا
ممتاز نسیم