EN हिंदी
چلتے چلتے رک جاتا ہے | شیح شیری
chalte chalte ruk jata hai

غزل

چلتے چلتے رک جاتا ہے

اصغر گورکھپوری

;

چلتے چلتے رک جاتا ہے
دیوانہ کچھ سوچ رہا ہے

اس جنگل کا ایک ہی رستہ
جس پر جادو کا پہرا ہے

دور گھنے پیڑوں کا منظر
مجھ کو آوازیں دیتا ہے

دم لوں یا آگے بڑھ جاؤں
سر پر بادل کا سایا ہے

اس ظالم کی آنکھیں نم ہیں
پتھر سے پانی رستا ہے

بھیگا بھیگا صبح کا آنچل
رات بہت پانی برسا ہے