چلو یہ تو حادثہ ہو گیا کہ وہ سائبان نہیں رہا
ذرا یہ بھی سوچ لو ایک دن اگر آسمان نہیں رہا
یہ بتا کہ کون سی جنگ میں میں لہولہان نہیں رہا
مگر آج بھی ترے شہر میں کوئی مجھ کو مان نہیں رہا
یہ نہیں کہ میری زمین پر کوئی آسمان نہیں رہا
مگر آسمان کبھی مرے ترے درمیان نہیں رہا
شب ہجر نے ہوس اور عشق کے سارے فرق مٹا دیئے
کوئی چارپائی چٹخ گئی تو کسی میں بان نہیں رہا
سبھی زندگی پہ فریفتہ کوئی موت پر نہیں شیفتہ
سبھی سود خور تو ہو گئے ہیں کوئی پٹھان نہیں رہا
نہ لبوں پہ غم کی حکایتیں نہ وہ بے رخی کی شکایتیں
یہ عتاب ہے شب وصل کا کہ میں خوش بیان نہیں رہا
اسی بے رخی میں ہزار رخ ہیں پرانے رشتے کے صاحبو
کوئی کم نہیں ہے کہ جان کر بھی وہ مجھ کو جان نہیں رہا
غزل
چلو یہ تو حادثہ ہو گیا کہ وہ سائبان نہیں رہا
شجاع خاور