EN हिंदी
چلو کچھ تو راہ طے ہو نہ چلے تو بھول ہوگی | شیح شیری
chalo kuchh to rah tai ho na chale to bhul hogi

غزل

چلو کچھ تو راہ طے ہو نہ چلے تو بھول ہوگی

اعزاز افصل

;

چلو کچھ تو راہ طے ہو نہ چلے تو بھول ہوگی
ابھی بند ہر گلی ہے جو کھلے گی طول ہوگی

ترے حسن کی ودیعت مری جرأت نظارہ
ترے رو بہ رو جھکے گی تو نظر کی بھول ہوگی

مرے ہم سفر بڑھیں گے مجھے راستہ بتا کر
مرے پاؤں سے اڑی ہے مرے سر پہ دھول ہوگی

مجھے قبلہ رو بٹھا کر مرے ہاتھ اٹھانے والو
یہ یقین بھی دلا دو کہ دعا قبول ہوگی

چلو مان لیں یہ دونوں کوئی شے ہے مصلحت بھی
نہ ستم کا دل دکھے گا نہ وفا ملول ہوگی

ترا فن قصہ گوئی ابھی دار تک ہی پہنچا
مرے شوق کی کہانی ابھی اور طول ہوگی

وہ لہو کی دھار افضلؔ جو ہے قرض خنجروں پر
نہ کریں گے ہم تقاضا نہ کبھی وصول ہوگی