EN हिंदी
چلو کے مل کے بدل دیتے ہیں سماجوں کو | شیح شیری
chalo ke mil ke badal dete hain samajon ko

غزل

چلو کے مل کے بدل دیتے ہیں سماجوں کو

تاثیر صدیقی

;

چلو کے مل کے بدل دیتے ہیں سماجوں کو
مٹا دیں سارے زمانے کے بد رواجوں کو

فقط دلوں کو ملانے سے کچھ نہیں ہوتا
بنے گی بات ملاؤگے جب مزاجوں کو

سروں کی بھیڑ تو اکثر مچائے ہنگامہ
سنوارو سوچ سے تم اپنے احتجاجوں کو

سنا ہے ہنسنے سے چہرہ پہ نور آتا ہے
کہاں سے پورا کریں اتنی احتجاجوں کو

نہیں رہے وہ حسیں مے کدوں کے جلوے اب
چلو کہ ڈھونڈھیں غموں کے نئے علاجوں کو