چلو کے مل کے بدل دیتے ہیں سماجوں کو
مٹا دیں سارے زمانے کے بد رواجوں کو
فقط دلوں کو ملانے سے کچھ نہیں ہوتا
بنے گی بات ملاؤگے جب مزاجوں کو
سروں کی بھیڑ تو اکثر مچائے ہنگامہ
سنوارو سوچ سے تم اپنے احتجاجوں کو
سنا ہے ہنسنے سے چہرہ پہ نور آتا ہے
کہاں سے پورا کریں اتنی احتجاجوں کو
نہیں رہے وہ حسیں مے کدوں کے جلوے اب
چلو کہ ڈھونڈھیں غموں کے نئے علاجوں کو
غزل
چلو کے مل کے بدل دیتے ہیں سماجوں کو
تاثیر صدیقی