چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی
اسی سے رونق دریائے دل ہے
یہی اک لہر طوفانی رہے گی
کبھی یہ شوق نامانوس ہوگا
کبھی وہ شکل انجانی رہے گی
نکل جائے گی صورت آئنے سے
ہمارے گھر میں حیرانی رہے گی
سبک سر ہو کے جینا ہے کوئی دن
ابھی کچھ دن گراں جانی رہے گی
سنوگے لفظ میں بھی پھڑپھڑاہٹ
لہو میں بھی پرافشانی رہے گی
ہماری گرم گفتاری کے باوصف
ہوا اتنی ہی برفانی رہے گی
ابھی دل کی سیاہی زور پر ہے
ابھی چہرے پہ تابانی رہے گی
ظفرؔ میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
غزل
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ظفر اقبال