چلے گی نہ اے دل کوئی گھات ہرگز
نہیں ان سے ہوگی ملاقات ہرگز
بہت کوشش ضبط کی ہم نے لیکن
ٹھہرتے نہیں دل میں جذبات ہرگز
تو بقراط دوراں ہے ناصح مگر ہم
سنیں گے نہ تیرے مقالات ہرگز
جو جاں بازیوں کی چلے چال اس کو
بساط وفا پر نہ ہو مات ہرگز
امیدوں کے جگنو چمکتے ہیں لیکن
نہ ٹھہریں گے دم بھر یہ لمعات ہرگز
ہے کیا زیست کیا حاصل زندگی ہے
نہیں ہوتے حل پہ سوالات ہرگز
وہ چمکا کریں لاکھ پر ہو سکیں گے
مقابل نہ سورج کے ذرات ہرگز
ہمارا ہے حق وفا دیں نہ دیں پر
نہ مانگیں گے ہم ان سے خیرات ہرگز
تن آسانو، الفت سے باز آؤ تم سے
اٹھیں گے نہ غم کے صعوبات ہرگز
نکیرین آئے ہیں کچھ کہہ کے ٹالو
ٹلیں گے نہ ورنہ یہ حضرات ہرگز
غلط بات ہے پر یہ لگتا ہے جیسے
کٹے گی نہ اب ہجر کی رات ہرگز
نہ گھبراؤ تم عارضی ہیں یہ آنسو
مسلسل نہ ہوگی یہ برسات ہرگز
زیاں بھی اٹھائے ہیں پر ہم نے یارو
نہیں دل میں رکھی کوئی بات ہرگز
وہ گزری ہے ہم پر جو مجنوں پہ گزری
بدلتے نہیں غم کے حالات ہرگز
دل کیفؔ ہے اک رباب شکستہ
اٹھیں گے نہ اب اس سے نغمات ہرگز
غزل
چلے گی نہ اے دل کوئی گھات ہرگز
سرسوتی سرن کیف