چلے جانا مگر سن لو مرے دل میں یہ حسرت ہے
فقط اک بار ہی کہہ دو ہمیں تم سے محبت ہے
یہ موسم بھی سہانا ہے تری یادوں کے میلے ہیں
ترے بن ایک بھی لمحہ بتا لینا قیامت ہے
برا کہتا ہے مجھ کو یہ زمانہ میں نے مانا ہے
نہ جانے کیوں اسے تجھ سے نہیں کوئی شکایت ہے
اچانک یوں جو مجھ سے بد گماں تو ہو گیا ہمدم
مجھے لگتا ہے یہ میرے رقیبوں کی شرارت ہے
نہیں کوئی خطا میری وہ پھر بھی زخم دیتے ہیں
میں ہوں بیمار الفت بس دوا میری محبت ہے
رہے کب تک بھلا مہتاب تنہائی کے عالم میں
کہ اب تو آ بھی جا اس کو فقط تیری ضرورت ہے
غزل
چلے جانا مگر سن لو مرے دل میں یہ حسرت ہے
بشیر مہتاب