EN हिंदी
چلے جائیں گے سب اسباب حیرانی نہ جائے گی | شیح شیری
chale jaenge sab asbab hairani na jaegi

غزل

چلے جائیں گے سب اسباب حیرانی نہ جائے گی

مبین مرزا

;

چلے جائیں گے سب اسباب حیرانی نہ جائے گی
کسی صورت دل و جاں کی یہ ارزانی نہ جائے گی

سو اب طے ہے نہ جائیں گی یہ دل کی وحشتیں جب تک
رگوں میں اس امڈتے خوں کی طغیانی نہ جائے گی

سبب یہ ہے کہ پہلے ہو چکا ہے فیصلہ سو اب
گواہی دی تو جائے گی مگر مانی نہ جائے گی

تجھے اس در سے لینا تھا نیا رنج و الم ہر پل
دل وحشت اثر تیری تن آسانی نہ جائے گی

کھلا یہ خون کی وحشت ہے سو میں مر تو سکتا ہوں
مرے اندر سے لیکن خوئے سلطانی نہ جائے گی

میسر آئیں گی ہر پل بہت آسائشیں لیکن
مجھے معلوم ہے اب دل کی ویرانی نہ جائے گی