چلے ہائے دم بھر کو مہمان ہو کر
مجھے مار ڈالا مری جان ہو کر
یہ صورت ہوئی ہے کہ آئینہ پہروں
مرے منہ کو تکتا ہے حیران ہو کر
جواں ہوتے ہی لے اڑا حسن تم کو
پری ہو گئے تم تو انسان ہو کر
بگڑنے میں زلف رسا کی بن آئی
لیے رخ کے بوسے پریشان ہو کر
کرم میں مزہ ہے ستم میں ادا ہے
میں راضی ہوں جو تجھ کو آسان ہو کر
جدا سر ہوا پر ہوئے ہم نہ ہلکے
رہی تیغ گردن پر احسان ہو کر
نہ آخر بچا پردۂ راز دشمن
ہوا چاک میرا گریبان ہو کر
حواس آتے جاتے رہے روز وعدہ
تری یاد ہو کر مری جان ہو کر
بتوں کو جگہ دل میں دیتے ہو توبہ
جلیلؔ ایسی باتیں مسلمان ہو کر
غزل
چلے ہائے دم بھر کو مہمان ہو کر
جلیلؔ مانک پوری