چل رہا ہوں پیش و پس منظر سے اکتایا ہوا
ایک سے دن رات کے چکر سے اکتایا ہوا
بے دلی ہشیار پہنچی مجھ سے پہلے تھی وہاں
میں گیا جس انجمن میں گھر سے اکتایا ہوا
ہو نہیں پایا ہے سمجھوتہ کبھی دونوں کے بیچ
جھوٹ اندر سے ہے سچ باہر سے اکتایا ہوا
اب مزین ہے تلفظ سے عوام الناس کے
شعر صرف و نحو کے چکر سے اکتایا ہوا
خواہش ایجاد ہے اپنے معانی کی اسے
لگ رہا یہ فعل ہے مصدر سے اکتایا ہوا
چبھ رہے ہیں آنکھ میں خواب پریشاں رفت کے
جسم ہے اس نیند کے بستر سے اکتایا ہوا
عمر لیکن رائیگاں کی اس کے جمع و خرچ میں
تھا ہمیشہ ذہن چیزے زر سے اکتایا ہوا
آج پھر پڑھتا ہوں مکتب میں نئے استاد سے
کل تھا جن اسباق کے ازبر سے اکتایا ہوا
ذات اپنی ان میں رکھتا ہوں برابر منقسم
دل مرا ہے بحث خیر و شر سے اکتایا ہوا
غزل
چل رہا ہوں پیش و پس منظر سے اکتایا ہوا
اعجاز گل