چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ
ان کی چالیں ہیں قیامت کی بلا کے جوڑ توڑ
ہے نظر انداز کوئی کوئی منظور نظر
دیکھنا اس بت کی چشم فتنہ زا کے جوڑ توڑ
کج ادائی بات ہے جس کی لگاوٹ کھیل ہے
سیکھ لے اس فتنہ گر سے کوئی آ کے جوڑ توڑ
پا کے قابو کرتے ہیں اہل غرض کیا داؤں گھات
چلتے ہیں مطلب کی چالیں مدعا کے جوڑ توڑ
دوست بن کر کرتے ہیں نیکی کے پردے میں بدی
راج نیت یہ ہے دیکھو اغنیا کے جوڑ توڑ
سختیاں استاد ہیں انساں کی دنیا میں حبیبؔ
کرتے ہیں مغلوب کو غالب سکھا کے جوڑ توڑ
غزل
چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ
حبیب موسوی