EN हिंदी
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل | شیح شیری
chain paDta hai dil ko aaj na kal

غزل

چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل

سید عابد علی عابد

;

چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل
وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل

میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی
ان کے مرنے کا نام تاج محل

کیا سہانی گھٹا ہے ساون کی
سانوری نار مدھ بھری چنچل

نہ ہوا رفع میرے دل کا غبار
کیسے کیسے برس گئے بادل

پیار کی راگنی انوکھی ہے
اس میں لگتی ہیں سب سریں کومل

بن پئے انکھڑیاں نشیلی ہیں
نین کالے ہیں تیرے بن کاجل

مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے
پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل

لاکھ آندھی چلے خیاباں میں
مسکراتے ہیں طاقچوں میں کنول

لاکھ بجلی گرے گلستاں میں
لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل

کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر
جل رہی ہے بہار کی مشعل

کوہ کن سے مفر نہیں کوئی
بے ستوں ہو کہیں کہ بندھیاچل

ایک دن پتھروں کے بوجھ تلے
خود بخود گر پڑیں گے راج محل

دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل