چین اب مجھ کو تہ دام تو لینے دیتے
تیرے فتنے کہیں آرام تو لینے دیتے
آپ نے اس کا تڑپنا بھی گوارا نہ کیا
دل مضطر سے کوئی کام تو لینے دیتے
موت بھی بس میں نہیں ہے ترے مجبوروں کی
زندگی میں کوئی الزام تو لینے دیتے
پل میں منزل پہ اڑا لائے فنا کے جھونکے
لطف رہ رہ کے بہر گام تو لینے دیتے
ہاتھ بھی تیری نگاہوں نے اٹھانے نہ دیا
دل بے تاب ذرا تھام تو لینے دیتے
سیفؔ ہر بار اشاروں میں کیا اس کو خطاب
لوگ اس بت کا مجھے نام تو لینے دیتے

غزل
چین اب مجھ کو تہ دام تو لینے دیتے
سیف الدین سیف