چڑھتے طوفان کو ساحل سے گزرنا تھا میاں
ریت کے گھر کو بہرحال بکھرنا تھا میاں
کب تلک پاؤں کو توڑے ہوئے بیٹھا رہتا
راہ دشوار سے رہرو کو گزرنا تھا میاں
اتنے مانوس تھے صیاد سے جاتے نہ کہیں
قید میں پر نہ پرندوں کے کترنا تھا میاں
جب نہ سمجھے تو پھر اب چھیڑ کے پچھتانا کیا
چشم نمناک میں ابلا ہوا جھرنا تھا میاں
عشق کے گہرے سمندر میں گئے کیوں انورؔ
اتھلے پانی میں اگر ڈوب کے مرنا تھا میاں
غزل
چڑھتے طوفان کو ساحل سے گزرنا تھا میاں
انور جمال انور