چڑھتے ہوئے دریا کی علامت نظر آئے
غصے میں وہ کچھ اور قیامت نظر آئے
گم اپنے ہی سائے میں ہیں ہٹ جائیں تو شاید
کھویا ہوا اپنا قد و قامت نظر آئے
کیا قہر ہے ہر سینے میں اک حشر بپا ہے
اک آدھ گریباں تو سلامت نظر آئے
کوچے سے ترے نکلے تو سب شہر تھا دشمن
ہر آنکھ میں کچھ سنگ ملامت نظر آئے
ہم کیسے یہ سمجھیں کہ پشیمان ہے قاتل
چہرے پہ نہ جب حرف ندامت نظر آئے
ہم مورد الزام سمجھتے رہے ان کو
دیکھا تو رضاؔ ہم ہی ملامت نظر آئے
غزل
چڑھتے ہوئے دریا کی علامت نظر آئے
رضا ہمدانی