چڑھتا سورج اڑتا بادل بہتا دریا کچھ بھی نہیں
سارا تماشا میرے لئے ہے لیکن میرا کچھ بھی نہیں
ان کی ننھی انگلی تو اب کمپیوٹر سے کھیلے ہے
آج کے بچوں کی نظروں میں چندا ماما کچھ بھی نہیں
میرے پیاسے ہونٹوں ہی سے بس دریا کی قیمت ہے
تشنہ لبی کا مول ہے سارا ورنہ دریا کچھ بھی نہیں
اس نے ہم کو ہلدی کیا دی ہم پنساری بن بیٹھے
لینے والے مالک ٹھہرے دینے والا کچھ بھی نہیں
تیرا میرا کرتے کرتے عمر گزاری جاتی ہے
سچ تو یہ ہے تیرا میرا میرا تیرا کچھ بھی نہیں
ہم نظروں نظروں میں اپنے دل کا سودا کر بیٹھے
سوچا سمجھا کچھ بھی نہیں اور دیکھا بھالا کچھ بھی نہیں
ان رشتوں کی بھیڑ میں اکثر مجھ کو ایسا لگتا ہے
ساری دنیا اپنی سگی ہے لیکن اپنا کچھ بھی نہیں
لاکھ کریں ہم سجدہ زمیں پر لاکھ جبیں کو گھس ڈالیں
صاف نہ ہو گر نیت گوہرؔ تو پھر سجدہ کچھ بھی نہیں
غزل
چڑھتا سورج اڑتا بادل بہتا دریا کچھ بھی نہیں
تنویر گوہر