چڑھی تیرے بیمار فرقت کو تب ہے
بشدت قلق ہے نہایت تعب ہے
مریض محبت ترا جاں بلب ہے
تجاہل ستم ہے تغافل غضب ہے
وہ آفت ہے آفت ہے آفت ہے آفت
غضب ہے غضب ہے غضب ہے غضب ہے
گلی یار کی ہے قدم رکھوں کیوں کر
چلوں سر کے بل یاں مقام ادب ہے
جو ابرو دکھایا تو عارض بھی دکھلا
وہ قرآن ہے یہ ہلال رجب ہے
ہوئی صبح پیری کٹی اب جوانی
یہ جلنا فقط شمع ساں شب کی شب ہے
وہ زلف سیہ ہے کہ مشک ختن ہے
نہیں خط سواد دیار حلب ہے
کھلا کچھ نہ مجھ پر نہ آنے کا منشا
جہت کچھ تو فرمائیے کیا سبب ہے
جو شجرہ تھا مجنوں کا شجرہ ہے میرا
جو تھا قیس کا سلسلہ وہ نسب ہے
غنیمت سمجھ وقت فرصت کو غافل
نہ ہاتھ آئے گا پھر یہ موقع جو اب ہے
خدا کی خدائی کا جلوہ ہے او بت
یہ حسن جوانی نہیں شان رب ہے
کروں کیوں نہ سامان عشرت مہیا
شب وصل دلبر عروسی کی شب ہے
جسے لوگ کہتے ہیں شاہ خراساں
وہ بے شبہ ابن امیر عرب ہے
غلام اس کا ہوں جو ہے کوثر کا ساقی
جبھی رندؔ مے خوار میرا لقب ہے
غزل
چڑھی تیرے بیمار فرقت کو تب ہے
رند لکھنوی