چڑھے ہوئے ہیں جو دریا اتر بھی جائیں گے
مرے بغیر ترے دن گزر بھی جائیں گے
اڑا رہی ہیں ہوائیں پرائے صحنوں میں
ڈھلے گی رات تو ہم اپنے گھر بھی جائیں گے
جو رو رہی ہے یہی آنکھ ہنس رہی ہوگی
ترے دیار میں بار دگر بھی جائیں گے
تلاش خود کو کہیں خاک و آب میں کر لیں
تمہارے کھوج میں پھر در بدر بھی جائیں گے
ہمیشہ ایک سی حالت پہ کچھ نہیں رہتا
جو آئے ہیں تو کڑے دن گزر بھی جائیں گے
یہ پھول پھول کسی خوش نما کی تحریریں
یہ لفظ معنوں سے اپنے مکر بھی جائیں گے
غزل
چڑھے ہوئے ہیں جو دریا اتر بھی جائیں گے
اکرم محمود