EN हिंदी
چڑھا کر تیر نظروں کی کماں پر | شیح شیری
chaDha kar tir nazron ki kaman par

غزل

چڑھا کر تیر نظروں کی کماں پر

نوین سی چترویدی

;

چڑھا کر تیر نظروں کی کماں پر
حسینوں کے قدم ہیں آسماں پر

ہر اک لمحہ لگے وہ آ رہے ہے
یقیں بڑھتا ہی جاتا ہے گماں پر

کوئی وعدہ وفا ہو جائے شاید
بھروسہ آج بھی ہے جان جاں پر

اترتی ہی نہیں بوسوں کی لذت
ابھی تک سواد رکھا ہے زباں پر

کسی کی روح پیاسی رہ نہ جائے
لہٰذا غم برستے ہے جہاں پر

اگر بھٹکا تو اس کو چھوڑ دیں گے
نظر رکھے ہوئے ہیں کارواں پر

اماں ہم بھی کرایہ دار ہی ہیں
بھلے ہی نام لکھا ہے مکاں پر