چڑھا کر تیر نظروں کی کماں پر
حسینوں کے قدم ہیں آسماں پر
ہر اک لمحہ لگے وہ آ رہے ہے
یقیں بڑھتا ہی جاتا ہے گماں پر
کوئی وعدہ وفا ہو جائے شاید
بھروسہ آج بھی ہے جان جاں پر
اترتی ہی نہیں بوسوں کی لذت
ابھی تک سواد رکھا ہے زباں پر
کسی کی روح پیاسی رہ نہ جائے
لہٰذا غم برستے ہے جہاں پر
اگر بھٹکا تو اس کو چھوڑ دیں گے
نظر رکھے ہوئے ہیں کارواں پر
اماں ہم بھی کرایہ دار ہی ہیں
بھلے ہی نام لکھا ہے مکاں پر
غزل
چڑھا کر تیر نظروں کی کماں پر
نوین سی چترویدی