چارہ فرمائی دل رسم بتاں ہے تو سہی
ابھی کچھ مہر و محبت کا نشاں ہے تو سہی
نقش پا تیرا ہے گر تو نہیں اے حشر خرام
اک نہ اک باعث آشوب جہاں ہے تو سہی
آپ سے آپ تو پیدا نہیں یہ لالہ و گل
کوئی آخر چمن آرائے جہاں ہے تو سہی
یہ بھی کہتے ہیں کہ ہے عرض تمنا بے سود
یہ بھی کہتے ہیں ترے منہ میں زباں ہے تو سہی
جلوۂ دوست کو سمجھا نہیں یہ بات ہے اور
جلوۂ دوست محیط دل و جاں ہے تو سہی
چاہئے اور تجھے کیا پئے ہنگامۂ حسن
تیرے قربان یہ سب کون و مکاں ہے تو سہی
ہم نے مانا کہ نہیں حالیؔ و مجروحؔ نہالؔ
میرؔ و غالبؔ کا یہ اعجاز بیاں ہے تو سہی
غزل
چارہ فرمائی دل رسم بتاں ہے تو سہی
نہال سیوہاروی