چار سو عالم امکاں میں اندھیرا دیکھا
تو جدھر ہے اسی جانب کو اجالا دیکھا
اس پہ قربان کہ جس نے تری آواز سنی
صدقے اس آنکھ کے جس نے ترا جلوہ دیکھا
خلوت قدس کی بے پردہ تجلی کو نہ پوچھ
شوق نظارہ میں صرف آنکھ کا پردہ دیکھا
آنکھ جب بند ہوئی کھل گیا راز قدرت
شان معبود اندھیرے میں اجالا دیکھا
پردہ اٹھ جائے گا جب روئے تجلی سے کلیم
آپ خود منہ سے کہیں گے کہ ابھی کیا دیکھا
روئے گل رنگ خزاں جوش جنوں فصل بہار
چار دن کے لئے اس باغ میں کیا کیا دیکھا
اوجؔ کج بختیٔ ارباب سخن سے کیا بحث
دامن گل کبھی کانٹوں میں نہ الجھا دیکھا
غزل
چار سو عالم امکاں میں اندھیرا دیکھا
اوج لکھنوی