EN हिंदी
چاندنی تھا کہ غزل تھا کہ صبا تھا کیا تھا | شیح شیری
chandni tha ki ghazal tha ki saba tha kya tha

غزل

چاندنی تھا کہ غزل تھا کہ صبا تھا کیا تھا

قیصر الجعفری

;

چاندنی تھا کہ غزل تھا کہ صبا تھا کیا تھا
میں نے اک بار ترا نام سنا تھا کیا تھا

اب کے بچھڑے ہیں تو لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا
میرا دل تھا کہ ترا عہد وفا تھا کیا تھا

خودکشی کر کے بھی بستر سے اٹھا ہوں زندہ
میں نے کل رات کو جو زہر پیا تھا کیا تھا

تم تو کہتے تھے خدا تم سے خفا ہے قیصرؔ
ڈوبتے وقت وہ جو اک ہاتھ بڑھا تھا کیا تھا