چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے
جل پری پاس کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے
دل نشیں کوئی نظارہ کوئی دل کش منظر
بات دلچسپ کوئی ہو تو غزل بنتی ہے
یا کسی درد میں ڈوبی ہوئی آواز نحیف
یا کوئی چیخ سنی ہو تو غزل ہوتی ہے
شاعری نام ہے احساس کے لو پانے کا
آگ سی دل میں دبی ہو تو غزل ہوتی ہے
کوئی کھلتا ہوا چہرا کوئی غنچہ کوئی پھول
آنکھ سیراب ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے
درمیاں آپ کے میرے کوئی حائل ہو جائے
کوئی دیوار کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے
کوئی جدت کوئی ندرت کوئی پاکیزہ خیال
ہاں کوئی بات نئی ہو تو غزل ہوتی ہے
پہلے شاعر کو ملے ذہن رسا قلب گداز
پھر وہ لفظوں کا دھنی ہو تو غزل ہوتی ہے
عام حالات میں ہوتی نہیں اے تاجؔ غزل
کچھ نہ کچھ درد سری ہو تو غزل ہوتی ہے

غزل
چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے
ریاست علی تاج