چاندنی اپنے ساتھ لائی ہے
تیری صورت میں رات آئی ہے
خود میں اب خود کو میں نہیں ملتا
اس قدر مجھ میں تو سمائی ہے
ایک دن جسم چھوڑ جائے گی
روح اپنی نہیں پرائی ہے
نہر میں صاف کچھ بھی دکھتا نہیں
آج پانی پہ کتنی کائی ہے
تجھ کو خط بھی لکھے ہیں خون سے اور
تیری تصویر بھی بنائی ہے
سر کھلے آیتیں ہیں رب جہاں
تو کہاں ہے کہاں خدائی ہے
اس زمیں سے اے آسماں والے
اب اٹھا لے ہمیں دہائی ہے

غزل
چاندنی اپنے ساتھ لائی ہے
شہزاد رضا لمس