EN हिंदी
چاندی کا بدن سونے کا من ڈھونڈ رہا ہے | شیح شیری
chandi ka badan sone ka man DhunD raha hai

غزل

چاندی کا بدن سونے کا من ڈھونڈ رہا ہے

پرتاپ سوم ونشی

;

چاندی کا بدن سونے کا من ڈھونڈ رہا ہے
اوروں میں ہی اچھائی کا دھن ڈھونڈھ رہا ہے

کچھ پیڑ ہیں نفرت کی ہوا جن سے بڑھی ہے
یہ باغ مگر اب بھی امن ڈھونڈ رہا ہے

سنگم کے علاقے سے ہے پہچان ہماری
یہ دل تو وہی گنگ و جمن ڈھونڈ رہا ہے

انجان سے اک خوف کو ڈھوتا ہوا انسان
اپنے کو بچانے کا جتن ڈھونڈ رہا ہے

گاؤں کے ہر اک خواب میں شہروں کی کہانی
شہروں میں جسے دیکھو وطن ڈھونڈ رہا ہے

لوگوں نے یہاں رام سے سیکھا تو یہی بس
ہر شخص ہی سونے کا ہرن ڈھونڈ رہا ہے