چاند تاروں سے بھرا یہ آسماں دے جاؤں گا
خود رہوں گا دھوپ میں اور سائباں دے جاؤں گا
میرے اچھے ہم سفر تجھ کو بھی میں جاتے ہوئے
راہ سے بھٹکا ہوا اک کارواں دے جاؤں گا
ہیں زلیخائیں بہت کوئی بھی یوسف ہو تو میں
مصر کے بازار میں اس کو دکاں دے جاؤں گا
جس نے توڑا دل مرا اور خواب کرچی کر دیے
اس کو شیشے کا بنا میں اک مکاں دے جاؤں گا
میرے ساحل پر رکیں گی جس نظر کی کشتیاں
اس کی پلکوں کو نیا اک بادباں دے جاؤں گا
دشمنوں کے سامنے تو بے خطر جاؤں گا شادؔ
تیر ان کے توڑ کر پھر اک کماں دے جاؤں گا
غزل
چاند تاروں سے بھرا یہ آسماں دے جاؤں گا
اشرف شاد