چاند تاروں کا ترے روبرو سجدہ کرنا
خواب دیکھا ہے تو کیا خواب کا چرچا کرنا
حسن برہم سے مرا عرض تمنا کرنا
جیسے طوفان میں ساحل سے کنارا کرنا
راس آئے گا نہ یہ کوشش بے جا کرنا
بد گمانی کو بڑھا کر مجھے تنہا کرنا
میری جانب سے ہے خاموش دریچے کا سوال
کب سے سیکھا تری آواز نے پروا کرنا
ہر قدم پر مری کانٹوں نے پذیرائی کی
جرم پوچھو تو بہاروں کی تمنا کرنا
دعوت شوخیٔ تقدیر اسے کہتے ہیں
کار امروز نہ کرنا غم فردا کرنا
ان کی محتاط نگاہی نے بھرم کھول دیا
جن کو منظور نہ تھا راز کا افشا کرنا
وقت کے ہاتھوں میں تریاک بھی ہے زہر بھی ہے
اس کو یک رنگ سمجھ کر نہ بھروسا کرنا
ترجمان غم دل ان کی نظر ہوتی ہے
جن کو آتا نہیں اظہار تمنا کرنا
خود نمائی نہیں انسان کی خودداری ہے
پرچم عظمت کردار کو اونچا کرنا
ظلمت جنبش لب کی نہیں امید مگر
نگہ ناز نہ بھولے گی اشارا کرنا
گو میں یوسف نہیں دامن تو مرے پاس بھی ہے
تم ذرا پیروی دست زلیخا کرنا
اے کہ تو نازش صناعیٔ دست فطرت
کاش آتا نہ تجھے خون تمنا کرنا
جادۂ عشق میں اک ایسا مقام آتا ہے
شرط اول ہے جہاں ترک تمنا کرنا
آپ کے عہد وفا پر مرا ایماں جیسے
کسی گرتی ہوئی دیوار پہ تکیہ کرنا
کوشش ضبط میں ہر سانس قیامت ہے عروجؔ
کھیل سمجھے ہو غم دل کو گوارا کرنا
غزل
چاند تاروں کا ترے روبرو سجدہ کرنا
عروج زیدی بدایونی