چاند سورج شفق کہکشاں ختم شد
اب اڑوں کس طرف آسماں ختم شد
ریگزار یقیں تا بحد نظر
سبزہ زار خیال و گماں ختم شد
پھر ہوا یوں کہ آنکھ ایک دم کھل گئی
مختصر یہ کہ بس داستاں ختم شد
فکر کے سارے گل بوٹے مرجھا گئے
ذہن کی ساری شادابیاں ختم شد
اس نے آتے ہی سب کھڑکیاں کھول دیں
دفعتاً سر میں تھا جو دھواں ختم شد
رشتے ناطے سبھی جوں کے توں ہیں مگر
اک تقدس جو تھا درمیاں ختم شد
ذہن کو اب نچوڑوں تو ٹپکے غزل
تھی کبھی وہ جو طبع رواں ختم شد
غزل
چاند سورج شفق کہکشاں ختم شد
محبوب راہی