چاند اوجھل ہو گیا ہر اک ستارا بجھ گیا
آندھیاں ایسی چلیں پھر دل ہمارا بجھ گیا
اب تو ہم ہیں اور سمندر اور ہوائیں اور رات
دور سے کرتا تھا جھلمل اک کنارا بجھ گیا
گھورتے ہیں لوگ بیٹھے کیا خلاؤں میں کہ اب
ہر اشارہ بجھ گیا ہے ہر سہارا بجھ گیا
ہر نظر کے سامنے اب بے کراں پہلی سی ریت
جگمگاتا بات کرتا دشت سارا بجھ گیا
جم گئی ہے برف کیسی ہر طرف لوگو یہاں
راکھ تک ٹھنڈی پڑی کیا کیا شرارا بجھ گیا
شہر چپ ہیں راستے خاموش ہیں چہرے اداس
بس بگولے اڑ رہے ہیں ہر نظارا بجھ گیا
غزل
چاند اوجھل ہو گیا ہر اک ستارا بجھ گیا
احمد ہمدانی