چاند نے آج جب اک نام لیا آخر شب
دل نے خوابوں سے بہت کام لیا آخر شب
ہائے وہ خواب کہ تعبیر سے سرشار بھی تھا
اس کی آنکھوں سے جو انعام لیا آخر شب
ہائے کیا پیاس تھی جب اس کے لبوں سے میں نے
مسکراتا ہوا اک جام لیا آخر شب
میں جو گرتا بھی تو قدموں میں اسی کے گرتا
اس نے خود بڑھ کے مجھے تھام لیا آخر شب
زندگی بھر کی مسافت کا مداوا کہیے
اس کی باہوں میں جو آرام لیا آخر شب
غزل
چاند نے آج جب اک نام لیا آخر شب
حمایت علی شاعرؔ