چاند مانگا نہ کبھی ہم نے ستارے مانگے
بس وہ دو دن جو ترے ساتھ گزارے مانگے
صرف اک داغ تمنا کے سوا کچھ نہ ملا
دل نے کیا سوچ کے نظروں کے اشارے مانگے
ہم نے جب جام اٹھایا ہے تو وہ یاد آیا
جس کی خاطر مے و مینا کے سہارے مانگے
ڈھل گئی رات تو خواب رخ جاناں ٹوٹا
بجھ گیا چاند تو آنکھوں نے ستارے مانگے
اٹھ گئی آنکھ تو گرداب کا دل ڈوب گیا
کھل گئی زلف تو موجوں نے کنارے مانگے
رات وہ حشر گلستاں میں اٹھا ہے یارو
صبح ہر پھول نے شبنم سے شرارے مانگے
غزل
چاند مانگا نہ کبھی ہم نے ستارے مانگے
شاہد اختر