چاند کی رعنائیوں میں راز یہ مستور ہے
خوب صورت ہے وہی جو دسترس سے دور ہے
اپنی سوچوں کے مطابق کچھ بھی کر سکتا نہیں
آدمی حالات کے ہاتھوں بہت مجبور ہے
خانۂ دل میں تم اپنے جھانک کر دیکھو ذرا
میرے اخلاص و محبت کا وہاں بھی نور ہے
حسن کی تخلیق میں مصروف ہے رب جہاں
اور شاعر حسن کی تعریف پر مامور ہے
یہ ہمارے حق میں اچھا ہو برا ہو کچھ بھی ہو
ہم نے کرنا ہے وہی جو آپ کو منظور ہے
وہ سراپا حسن ہے اور میں سراپا عشق ہوں
ساز سے دل اس کا میرا سوز سے معمور ہے
مجھ کو ہے منظور جبر ہجر بھی اس کے لیے
مجھ سے رہ کر دور بھی کوئی اگر مسرور ہے
آدمی کم گو ہے اور گھر سے نکلتا بھی نہیں
شہر میں پھر بھی منورؔ کس قدر مشہور ہے
غزل
چاند کی رعنائیوں میں راز یہ مستور ہے
منور ہاشمی