چاند چھونے کی طلب گار نہیں ہو سکتی
کیا مری خاک چمکدار نہیں ہو سکتی
ہو نہ ہو اپنی بصارت نے مجھے روکا ہے
غیب جاتے ہوئے دیوار نہیں ہو سکتی
جتنی پیڑوں میں نظر آتی ہے تقلیب کے بعد
یہ زمیں اتنی پر اسرار نہیں ہو سکتی
میں نے ڈھونڈا ہے چراغوں کی لوؤں میں تجھ کو
تو ستارے میں نمودار نہیں ہو سکتی
یہ زمینوں پہ لہکتی ہوئی گندم کی مہک
آسمانوں کی طرف دار نہیں ہو سکتی
میں کسے خواب سنانے کے لیے آیا ہوں
شب اگر نیند سے بیدار نہیں ہو سکتی
جس نے آنسو پہ قناعت کا چلن سیکھا ہو
وہ نظر خوگر دینار نہیں ہو سکتی
غزل
چاند چھونے کی طلب گار نہیں ہو سکتی
دانیال طریر