چاکری میں رہ کے اس دنیا کی مہمل ہو گئے تھے
ہم تبھی تو دیکھتے ہی اس کو پاگل ہو گئے تھے
جسم سے باہر نکل آئے تھے ہم اس کی صدا پر
ایک لمحے کو تو سارے مسئلے حل ہو گئے تھے
عشق مقناطیس پر سب جمع تھے ذرے ہمارے
منتشر مٹی کے منصوبے مکمل ہو گئے تھے
میرے ہر مصرعے پہ اس نے وصل کا مصرعہ لگایا
سب ادھورے شعر شب بھر میں مکمل ہو گئے تھے
در بہ در ناکام پھرتی تھی سیہ بختی ہماری
اور ہم گھبرا کے ان آنکھوں میں کاجل ہو گئے تھے
میں مکان وصل میں پہنچا تو وہ خالی پڑا تھا
اور دروازے بھی باہر سے مقفل ہو گئے تھے
گرد اڑاتی جا رہی تھی تیز رفتاری ہماری
ہم سفر سب دور تک آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے
فرحتؔ احساس ایک دم عاشق ہوئے تھے جانے کس کے
دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے
غزل
چاکری میں رہ کے اس دنیا کی مہمل ہو گئے تھے
فرحت احساس