چاک دامن بھی ہوا چاک گریباں کی طرح
آنکھ برسے ہے شب غم ابر باراں کی طرح
وائے قسمت چھا گئی خاموشی دل میں کس قدر
بجھ گیا ہوں میں چراغ گور ویراں کی طرح
اس گل رعنا کی الفت چھپ نہیں سکتی کبھی
ابھرا ہے داغ وفا مہر درخشاں کی طرح
ہے کرامت عشق کی پہنچا میں بام عرش تک
گویا اک درویش ہوں میں اہل عرفاں کی طرح
ان کے وعدے نے مجھے بخشا ہے ذوق زندگی
کھل گیا دل غنچۂ جشن بہاراں کی طرح
پوچھ مت مجھ سے ہے کیسی لذت سوز دروں
جاں گدازی ہے مری شمع فروزاں کی طرح
گھر نہیں دولت نہیں حرمت نہیں سطوت نہیں
ہم بھی کیا آوارہ ہیں گردون گرداں کی طرح
محفل یاراں نہیں بزم بہاراں بھی نہیں
ہم جئے ہیں ساکن شہر خموشاں کی طرح
بیکسی چشم فلک نے دم بدم دیکھی مری
دنیا میں عاجز کہاں مجھ خانہ ویراں کی طرح
افسر خوباں جلالیؔ ٹھہرا ہے جب سے کوئی
گلشن دل زیبا ہے فردوس رضواں کی طرح

غزل
چاک دامن بھی ہوا چاک گریباں کی طرح
رؤف یاسین جلالی