چاہتے ہیں گھر بتوں کے دل میں ہم
ہیں جنوں کی آخری منزل میں ہم
گیت گاتے ہیں قفس منزل میں ہم
کوستے جاتے ہیں لیکن دل میں ہم
یہ تو مت محسوس ہونے دیجیے
اجنبی ہیں آپ کی محفل میں ہم
مے کدے کے چور دروازے بھی ہیں
آ تو جائیں شیخ کی منزل میں ہم
خود فریبوں کو پیام آگہی
مبتلا ہیں سعئ لا حاصل میں ہم
دور سے آتا ہے مبہم سا جواب
دیں اسے آواز جس منزل میں ہم
روک لیں پلکوں پہ آنسو کی طرح
کیا سمو دیں موج کو ساحل میں ہم
سوچیے آخر وہ کیا حالات ہیں
جا رہے ہیں کوچۂ قاتل میں ہم
جی نہ میلا کیجیے فریاد پر
ہیں پشیماں آپ اپنے دل میں ہم
ہم غلط رجحان رکھتے تھے کہ آپ
آپ سے پوچھیں گے مستقبل میں ہم
نا شناسان ادب کے ہاتھ سے
شادؔ صاحب ہیں بڑی مشکل میں ہم
غزل
چاہتے ہیں گھر بتوں کے دل میں ہم
شاد عارفی