EN हिंदी
چاہو تو مرا دکھ مرا آزار نہ سمجھو | شیح شیری
chaho to mera dukh mera aazar na samjho

غزل

چاہو تو مرا دکھ مرا آزار نہ سمجھو

اختر بستوی

;

چاہو تو مرا دکھ مرا آزار نہ سمجھو
لیکن مرے خوابوں کو گنہ گار نہ سمجھو

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا
دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو

آنگن کے سکوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی
کہتے ہو جسے گھر اسے بازار نہ سمجھو

اجڑے ہوئے طاقوں پہ جمی گرد کی تہہ میں
روپوش ہیں کس قسم کے اسرار نہ سمجھو

احساس کے سو زخم بچا سکتے ہو اخترؔ
اظہار‌ مروت کو اگر پیار نہ سمجھو