چاہے تن من سب جل جائے
سوز دروں پر آنچ نہ آئے
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
بحر محبت توبہ! توبہ!
تیرا جائے نہ ڈوبا جائے
اے وائے مجبوریٔ انساں
کیا سوچے اور کیا ہو جائے
ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
گاتا جائے روتا جائے
عزت دولت آنی جانی
مل مل جائے چھن چھن جائے
جس کو کہنی دل کی کہانی
سر تا پا دھڑکن بن جائے
مے خانے کی سمت نہ دیکھو
جانے کون نظر آ جائے
کاش ہمارا فرض محبت
عیش محبت پر چھا جائے
غزل
چاہے تن من سب جل جائے
حفیظ میرٹھی