چاہے جنت نہ ملے چاہے خدائی نہ ملے
ہے دعا میری یہی تجھ سے جدائی نہ ملے
کون سی راہ چنی تم نے محبت کے لئے
چل کے آ جاؤ مگر آبلہ پائی نہ ملے
ساتھ تیرا ہو اگر موت بھی آئے ہمدم
زیست جو مجھ کو ملے تجھ سے پرائی نہ ملے
اجنبی اپنے ہی بن جاتے ہیں جن سے یارو
نام کو میرے کبھی ایسی برائی نہ ملے
جو بدل ڈالے مری بات کا مطلب ہی سحرؔ
میرے اشعار میں ایسی بھی صفائی نہ ملے

غزل
چاہے جنت نہ ملے چاہے خدائی نہ ملے
رمضان علی سحر