چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
جبر وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری
اک آوارہ بادل سے کیوں میں نے سایہ مانگا تھا
میری بھی یہ نادانی تھی اس کی بھی تھی مجبوری
مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
غزل
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
محسنؔ بھوپالی