چاہت میں آسماں کی زمیں کا نہیں رہا
کیا بد نصیب تھا وہ کہیں کا نہیں رہا
دنیا کے انہماک میں دیں کا نہیں رہا
گھر اس کا جس جگہ تھا وہیں کا نہیں رہا
یہ اور بات ہے کہ ہمیں اعتبار ہو
ورنہ زمانہ آج یقیں کا نہیں رہا
ہاں کہہ کے اپنی جان بچانے لگے ہیں لوگ
یعنی کہ اب زمانہ نہیں کا نہیں رہا
پیشانیوں پہ نقش تو سجدے کا بن گیا
لیکن کہیں نشان جبیں کا نہیں رہا
جاویدؔ اپنے فکر و نظر آسماں سے لا
پیارے زمانہ خاک نشیں کا نہیں رہا

غزل
چاہت میں آسماں کی زمیں کا نہیں رہا
خواجہ جاوید اختر