چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
حسرت کسی عاشق کی نکالی بھی گئی ہے
تم نے کسی بیمار کو اچھا بھی کیا ہے
حالت کسی بگڑے کی سنبھالی بھی گئی ہے
تم کھیل سمجھتے ہو مگر یہ تو بتاؤ
آہ دل مضطر کبھی خالی بھی گئی ہے
کیا خاک کروں میں خلش عشق کا شکوہ
یہ پھانس کبھی تم سے نکالی بھی گئی ہے
جھگڑے بھی کہیں رشک رقابت کے مٹے ہیں
الفت میں کبھی خام خیالی بھی گئی ہے
مضطرؔ کو کبھی حسن کا صدقہ بھی دیا ہے
یہ بھیک کبھی آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
غزل
چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
مضطر خیرآبادی