چاہت کا سنسار ہے جھوٹا پیار کے سات سمندر جھوٹ
ساری دنیا بول رہی ہے کتنے سندر سندر جھوٹ
اشکوں کو موتی کہتا ہوں رخساروں کو پھول
میں لفظوں کا سوداگر ہوں میرے باہر اندر جھوٹ
کھوٹے سکے لے کر گھومیں ہم دونوں بازاروں میں
تیری آنکھ کے موتی جھوٹے میرے من کا مندر جھوٹ
میں نے کہا جلووں کا مسکن اجلے چہرے اونچی ذات
سب نے کہا تم سچ کہتے ہو بولا ایک قلندر جھوٹ
دنیا بھر میں ایک حقیقت سچا ایک وجود رشیدؔ
ورنہ سارے جنگل پربت صحرا اور سمندر جھوٹ

غزل
چاہت کا سنسار ہے جھوٹا پیار کے سات سمندر جھوٹ
رشید قیصرانی